افسانہ              وراثت                     از:۔  ایم مبین    

 وراثت

 

 

ردّی والا اُن ساری کتابوں کو تول کر تھیلے میں بھر رہا تھا جو اُنھوں نے گذشتہ تیس چالیس سالوں میں جمع کررکھی تھیں اور وہ حسرت سے اُن کتابوں کو ردّی والے کے تھیلوں میں گم ہوتے دیکھ رہے تھے ۔

ردّی والا جب بھی کوئی کتاب اپنے ترازو میں رکھتا ،اُس کتاب کے سر ورق پر نظر پڑتے ہی اُس سے وابستہ ایک کہانی ذہن میں اُبھر آتی۔

یہ کتاب اُنھوں نے دہلی سے منگوائی تھی ۔

اِس کتاب کوانھوں نے کلکتہ سے خریدا تھا ۔

یہ کتاب مصنف نے خود اُنھیں تحفہ کے طور پر دی تھی۔

یہ کتاب اُنھیں انعام میں ملی تھی ۔

یہ کتاب اُنھوں نے ایک لائبریری سے چرائی تھی ۔ کیونکہ یہ نایاب تھی لیکن اِس کتاب سے اُن کے علاوہ کوئی بھی فیض حاصل نہیں کرسکتا تھا ۔ یہ لائبریری میں پڑی دھول کھارہی تھی ۔ اُنھیں لگا وہی اِس کتاب کو اپنے پاس رکھ کر اس کا بہتر استعمال کرسکتے ہیں ۔ اس لئے اِس کتاب کو چرانا بھی کوئی گناہ محسوس نہیں ہوا تھا ۔ ان کتابوں میں اُن کی اپنی لکھی ہوئی کتابیں بھی تھیں ،کچھ اچھی حالت میں کچھ خراب حالت میں ۔ شاید وہ آخری جلدیں تھیں لیکن پھر بھی اِنہیں ردّی میں فروخت کرتے ہوئے اُنھیں کوئی دُکھ محسوس نہیں ہورہا تھا ۔

اُنھوں نے اپنے دِل پہ جیسے ایک پتھر رکھ دیا تھا ۔

گذشتہ تیس چالیس سالوں میں اُنھوں نے جتنا پیار ، محبت اُن کتابوں کو دیا تھا ، ایک لحظہ میں سب ختم کرلی تھیں ۔

کبھی گھر کا کوئی فرد کسی کتاب کو غلط جگہ پر رکھ دیتا تھا تو وہ بھڑک اُٹھتے تھے۔

اگر کسی سے کتاب کا کوئی ورق پھٹ جاتا تو اُس کی تو شامت ہی آجاتی تھی ۔

گھر میں اکثر اُن کی کتابوں اور کاغذات کو اِدھر اُدھر رکھنے پر تنازعہ پیدا ہوتا رہتا تھا ۔

لیکن آج اُنھیں اُن ساری کتابوں کو گھر سے وداع کرنا پڑ رہا تھا ۔

کتابوں کے ساتھ کاغذات کا ایک ڈھیر بھی ردّی والے کے تھیلوں میں جارہا تھا ۔ وہ کاغذات اُن کی ادھوری کہانیاں ، نوٹس وغیرہ تھے ۔ کسی کتاب کو پڑھ کر اُنھوں نے جو نوٹس لکھے تھے یا پھر کسی افسانے کو لکھنے سے پہلے جو خاکے تےّار کئے تھے ۔

اس کے علاوہ اخبارات اور رسائل کی کٹنگ کاایک ڈھیر تھا ۔

اِس ڈھیر میں اُن کے مضامین بھی تھے اور کچھ یادگار اور کارآمد مضامین بھی جن کے تراشے اُنھوں نے برسوں سے سنبھال کر رکھے تھے ۔

اُن کی نظر میں اِن تراشوںکی حیثیت بہت کارآمد تھی ۔ لیکن شاید دُنیا کی نظر میں بیکار ردّی کے ٹکڑے ۔

کچھ مشہور ادبی رسائل کے گذشتہ دس پندرہ سالوں کے تمام شمارے جو شاید اہلِ ذوق کے لئے قیمتی ہوں ، لیکن اب وہ ردّی کے مول بک رہے تھے ۔

وہ کُرسی پر بیٹھے ردّی والے کو اُن چیزوںکو تولتا دیکھ رہے تھے ۔ وقفہ وقفہ سے بہو اور بیٹا آکر ایک اُچٹتی سی نظر اِس کاروائی پر ڈال جاتے تھے ۔

وہ بار بار یہ دیکھنے کے لئے آتے تھے کہ کون سی چیزیں فروخت ہورہی ہیں اور کون کون سی باقی ہیں ۔

بڑی سی کتابوں کی الماری کی کتنی جگہ خالی ہورہی ہے ۔

اُنھوں نے بھی دِل پر پتھر رکھ لیا تھا اور طے کرلیا تھا کہ آج وہ اپنا کاغذ کا آخری پرزہ بھی بیچ دیں گے اور روزانہ کے ذہنی تناؤ اور اُٹھ کھڑے ہونے والے تنازعات سے ہمیشہ کے لئے نجات پالیں گے ۔

اُنھیں پورا یقین تھا ۔

گھر کا کوئی بھی فرد آکر اُنھیں ایسا کرنے سے نہیں روکے گا ۔

" ابا ،یہ ساری چیزیں آپ نے گذشتہ تیس چالیس سالوں میں جمع کی تھیں ۔ اِتنے سالوں سے انہیں سنبھال کر رکھا ۔ اپنی جان سے زیادہ اِن کی حفاظت کی ، پھر آج یہ سب کیوں فروخت کررہے ہیں ؟

یا پھر کسی چیز کو فروخت کرنے سے روکے ۔

" آپ اِسے کیوں فروخت کررہے ہیں ؟ اِسے تو آپ اپنی زندگی کا انمول سرمایہ مانتے تھے ۔ "

اُنھیں یقین تھا کہ گھر کے افراد تو اِس سے خوش ہورہے ہوں گے ، گھر میں بہت بڑی جگہ خالی ہورہی ہے ۔ اب اِس جگہ وہ اپنی پسند کی کوئی آرائش کی چیز رکھ سکیں گے ۔

اُنھوں نے خطوط کا بڑا سا بکس بھی نکال رکھا تھا ۔ ان خطوط کے بارے میں بھی اُنھوں نے ردّی والے سے پوچھا تھا ۔

" نہیں صاحب ! یہ تو میرے کسی کام کے نہیں ہیں ۔ اِس بوجھ کو میں یہاں سے لے جاکر کیا کروں گا ؟ "

ردّی والے کا جواب سُن کر اُنھوں نے اُسے بھی ٹھکانے لگانے کا راستہ سوچ لیا تھا ۔

آج وہ اُن تمام خطوط کو جلادیں گے ۔

وہ ملک کے مشہور عالم اور مشاہیر کے خطوط تھے ۔ گذشتہ تیس چالیس سالوں میں اُنھوں نے ملک کے جن ادیب ، دانش وروں سے خط و کتابت کی تھیں اور جو خطوط اُن کی نظر میں تاریخی اہمیت کے حامل تھے ، اُنھوں نے اُنھیں بڑے جتن سے سنبھال کررکھا تھا ۔

لیکن جب اُن کے بعد اِن چیزوں کا کوئی قدر دان اور اُنھیں سنبھال کر رکھنے والا ہی نہیں ہوگا تو پھر اِنہیں گھر میں رکھ کر کیا فائدہ ، گھر والوں کی نظر میں تو وہ کوڑا کرکٹ ہی ہے ۔

اِس لئے وہ اُن تمام خطوط کو جلا کر اہلِ خانہ کو کوڑے کرکٹ سے نجات دلا دیں گے ۔

اُنھوں نے یہ بھی طے کرلیا تھا کہ اب وہ اپنے پسند کا کوئی بھی اخبار ، رسالہ یا کتاب گھر نہیں لائیں گے ۔

وہ جانتے تھے کہ اُن کے اِن اقدامات سے گھر والوں کو بے حد خوشی ہوگی ۔

آج جو وہ قدم اُٹھا رہے تھے ، اُس سے وہ گھر والوں کے چہروں پر خوشی کے تاثرات بھی دیکھ رہے تھے ۔

گھر والوں کی خوشی میں ہی اُن کی خوشی تھی ۔

آخر وہ زندگی بھر گھر والوں کی خوشیوں کے لئے ہی تو سب کچھ کرتے رہے تھے ۔

زندگی بھر اُنھوں نے اِن سب کا خیال رکھا تھا۔

ہمیشہ یہ کوشش کی کہ انہیں کسی بات کی کمی نہ ہو ۔ اِس کمی کو پورا کرنے کے لئے وہ بارش، دھوپ ، سردی ، گرمی میں جدوجہد کرتے رہے ۔

اب جب آخری عمر میں اُنھوں نے ساری خوشیاں اپنے گھر والوں کے دامن میں ڈال دی ہیں تو اِن کی آخری چھوٹی سی خوشی کیوں نہ پوری کریں ؟

ڈرائنگ روم میں رکھی ان کی بڑی سی کتابوں کی الماری اور اُس الماری میں آویزاں پرانی بوسیدہ کتابوں سے اتنے اچھے سجے سجائے ڈرائنگ روم کا شو خراب ہوتا ہے ۔

گھر والوںکے جو بھی ملنے والے گھر آتے ہیں ، ناگواری سے اُس الماری کی طرف دیکھتے ہیں ، اُس الماری کا مذاق اُڑاتے ہیں اور اُنھیں اُن کی وجہ سے خفّت اُٹھانی پڑتی ہے ۔

مجبوری یہ ہے کہ اتنے بڑے گھر میں ان کتابوں کو رکھنے کے لئے کوئی اور جگہ نہیں ہے اور ان کا خیال ہے کہ کتابیں ڈرائنگ روم کی زینت ہوتی ہیں ۔ اُنھیں دیکھ کر ہی آنے والا صاحبِ خانہ کی علم دانی ، اُس کے رُتبے کا اندازہ لگا لیتا ہے ۔ اِس لئے کتابیں ڈرائنگ روم میں ہی رکھی ہونی چاہےئے ۔

انہی سوچوں کا ٹکراؤ آئے دِن گھر کا سکون غارت کئے رہتا تھا ۔

اپنی کوئی کتاب یا رسالہ نہ ملنے پر وہ چراغ پا ہوتے تھے ۔ پہلے اُن کے غصے سے ہر کوئی ڈر جاتا تھا ۔

لیکن اب اُن کے غصے سے کوئی بھی نہیں ڈرتا ، اُن سے اُلجھ جاتا ہے اور اُنھیں باتیں سنانے لگتا ہے ۔

" اپنے کوڑے کرکٹ کی خود ہی حفاظت کیا کریں ۔ ہمیں اِن میں کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ سارا کوڑا کرکٹ جمع کرکے اِتنے اچھے ڈرائنگ روم کے شو کو خراب کررکھا ہے ۔ "

یہ سُن کر اُن کے دِل کو ایک ٹھیس لگتی تھی ۔

گویا اُن کا خواب اب گھر والوں کی نظر میں کوڑا کرکٹ ہے ۔

برسوں تک اُنھوں نے ایک خواب دیکھا تھا ۔

اُن کا ایک بڑا اچھا سا گھر ہو ۔ جس میں ایک بڑا سا سجاسجایا ڈرائنگ روم ہو ۔ اُس ڈرائنگ روم میں اُن کی ایک بڑی سی الماری ہو ۔ جس میں اُن کی ساری کتابیں اور سارا علمی سرمایہ سجا ہو ۔

تاکہ ہر آنے والے پر آشکار ہو ، اُنھوں نے کیا کیا سرمایہ اور خزینہ جمع کررکھا ہے اور اسے اُن کے خزینے پر رشک ہو ۔

ساری زندگی ایک چال کے ایک چھوٹے سے کمرے میں کٹی تھی جس کے ایک کونے میں اُن کی کتابوں کا ڈھیر بے ترتیبی سے پڑا رہتا تھا ۔ وہ ڈھیر بڑھتا بھی تو کسی کو محسوس نہیں ہوتا تھا ۔ وہ اپنی ضرورت کی چیز اِس ڈھیر سے بخوبی ڈھونڈ کر نکال لیتے تھے ۔ اور غیر ضروری چیز کو اُس ڈھیر میں شامل کردیتے تھے ۔

اُن کے چھوٹے سے ٹیبل پر صرف تازہ کتابیں ، رسائل اور لکھنے کا سامان ہوا کرتا تھا ، تب وہ خواب دیکھا کرتے تھے ۔

کبھی نہ کبھی تو اُن کی زندگی میں ایسا وقت آئے گا جب اِن کتابوں کا یہ ڈھیر اُن کے ڈرائنگ روم میں سلیقے اور قرینے سے سجا ہوگا ۔

وہ وقت بھی آیا تو ریٹائرمنٹ کے بعد ۔

مضافات میں ایک اچھے فلیٹ کا سودا ہوگیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد جو گریجویٹی ، پی ایف ملنے والا تھا اور پرانے کمرے کی جو قیمت آرہی تھی ، اُن روپیوں سے ایک اچھا فلیٹ مل گیا ۔

تب اُنھیں لگا ، اُن کے برسوں کے خواب کی تعبیر کا وقت آگیا ۔

اُس گھر کو ہر کسی نے اپنی پسند کے مطابق سنوارا تھا ۔

بیٹے بہو نے اپنے انداز میں اپنا کمرہ سجایا تھا ۔ بیٹی اور چھوٹے بیٹے نے بھی اس گھر میں خوب صورت رنگ بھرے تھے ۔

اُنھوں نے ڈرائنگ روم میں اپنے اوراپنی کتابوں کے لئے ایک بڑی سی الماری بنائی تھی ۔

اُن کا تو اور بھی ایک خواب تھا ، اُن کا اپنا ایک کمرہ ہو ، جہاں بیٹھ کر وہ لکھنے پڑھنے کا کام کرسکیں ۔ لیکن جتنا پیسہ اُن کے پاس تھا ، اُس میں یہ ممکن نہیں تھا ۔ اِس لئے اُنھوں نے اپنے لئے ڈرائنگ روم کو ہی پسند کیا ۔

جب اس فلیٹ کا کام چل رہا تھا تو انھیں فاطمہ کی بہت یاد آتی تھی ۔اس طرح کے خوب صورت گھر کا خواب اُن کے ساتھ فاطمہ نے بھی دیکھا تھا اور پھر زندگی بھر اُس نے اس خواب کی تعبیر کی جدوجہد میں ہاتھ بٹایا تھا ۔

لیکن اُن کا یہ خواب پورا نہیں ہوسکا ۔

آخر اُن کے ریٹائرمنٹ سے ایک سال قبل اُس نے اُن کا ساتھ چھوڑ دیا ۔ وہ بیماری اُس کے لئے جان لیوا ثابت ہوئی تھی جو اُس نے اُن سے زندگی بھر چھپائے رکھی تھی ۔

فاطمہ کی موت کے بعد وہ بہت اکیلے ہوگئے تھے ۔

اِس اکیلے پن کو اُنھوں نے ادب کے ذریعہ دُور کرنے کی کوشش کی تھی ۔ اِس دوران اُنھوں نے اِتنا لکھا اور اِتنا اچھا لکھا جووہ برسوں میں نہیں لکھ پائے تھے ۔

ویسے بھی ادب اُن کے لئے اُن کی زندگی اور رُوح تھی ۔

اُنھوں نے زندگی میں صرف تین باتوں پر توجہ دی تھی ۔ اپنی نوکری ، گھر اور ادب ۔ اُن کی زندگی اُنہی کے گرد گردش کرتی تھی ۔ ڈیوٹی پر جاتے ، ڈیوٹی سے آکر گھر ، بیوی بچوں پر توجہ دیتے ، پھر مطالعہ یا لکھنے میں غرق ہوجاتے ۔

وہ آخری عمر تک اپنے بیوی بچوں کو ایک اچھا گھر تو نہیں دے سکے لیکن اُنھوں نے اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دی تھی اور اُنھیں کبھی کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دی تھی ۔

دونوں لڑکے برسرِ روزگار ہوگئے تھے ۔ بڑے کی شادی بھی ہوگئی تھی ، بہو بھی گھر آگئی تھی ، چھوٹے کی ایک اچھے خاندان میں بات پکی ہوئی تھی ۔ لڑکی کالج کے آخری سال میں تھی ، بس ایک ہی فکر باقی تھی ، اُس کے رشتے کی ۔

اُس گھر کو لینے میں اُنھوں نے اپنی زندگی کی ساری کمائی صرف کردی تھی ، لیکن پھر بھی اُنھیں اعتماد تھا ۔ اگر لڑکی کے لئے کوئی اچھا سا رشتہ آجائے تو وہ اُس کی شادی فوراً کرسکتے ہیں ۔ فاطمہ نے بچپن سے لڑکی کے لئے جہیز جمع کر رکھا تھا ۔

لیکن نیا گھر جیسے اُن کو راس نہیں آسکا ۔

وہاں آنے کے بعد وہ اپنے تمام ادبی غیر ادبی دوستوں سے ٹوٹ گئے تھے ۔ شاید ہی کوئی دوست اُن سے ملنے کے لئے اُن کے گھر آپاتا تھا ۔ بھلا اُن سے ملنے کے لئے اِتنی دُور مضافات کے اِس علاقے میں کون جاتا ؟

اُنھیں ہی اپنے دوستوں سے ملنے اور اپنے ذوق کی آبیاری کرنے کے لئے پرانی جگہ جانا پڑتا تھا ۔

ورنہ اکیلے ہی گھر میں رہنا پڑتا تھا ۔

دونوں لڑکے تو سویرے ہی اپنے آفس چلے جاتے تھے ۔ لڑکی کالج چلی جاتی تھی ۔ گھر میں اکیلی بہو اور وہ رہتے تھے ۔ بہو بھی کبھی سامان لینے جب بازارجاتی تھی تو دو دو ، تین تین گھنٹہ واپس نہیں آتی تھی۔

ایسے میں اُنھیں اکیلے گھر میں کوفت ہوتی تھی ۔ اُن کی دیرینہ رفیق کتابیں بھی اُن کا دِل نہیں بہلا پاتی تھیں اور کوشش کرنے کے باجود وہ ایک لفظ بھی نہیں لکھ پاتے تھے ۔ اپنی حالت کو دیکھ کر اُنھیں محسوس ہونے لگا کہ جیسے اُنھوں نے جو کچھ سوچ رکھا تھا یا جو خواب دیکھے تھے وہ خواب ہی تھے ۔

ابھی وہ اِس سے اُبھر بھی نہیں پائے تھے کہ نئے تنازعات اُٹھ کھڑے ہوئے ،

گھر کے ہر فرد کو ڈرائنگ روم میں رکھی اُن کی کتابوں کی الماری پر اعتراض تھا ۔ اُن کا کہنا تھا یہ ڈرائنگ روم کا شو خراب کررہی ہیں ۔ پہلے اگر وہ بیٹوں سے تھوڑی اونچی آواز میں بات کرتے تھے تو ڈر سے بچے کانپنے لگتے تھے اور اُن کی ہر بات پر سر تسلیم خم کردیتے تھے ۔

لیکن جب سے وہ کمانے لگے تھے ، اُنھیں یہ محسوس ہوا بچے بھی نہ صرف اونچی آواز میں بولنے لگے ہیں بلکہ اُن کی آواز کو دبانے کی کوشش کرکے اُن پر اپنی مرضی لادنے لگے ہیں ۔

سب کا یہی کہنا تھا یہ کتابیں وغیرہ بے کار ہیں ۔ اِنھیں ڈرائنگ روم سے ہٹا دیا جائے ۔ پرانے گھر میں ایک کونے میں پڑی رہتی تھیں تو کسی کا اُس پر دھیان نہیں جاتا تھا لیکن اب یہ آنکھوں میں جیسے چبھنے لگی ہیں ۔ روز روز کے تنازعات اور جھگڑوں سے تنگ آکر ایک دِن اُنھوں نے سنجیدگی سے سوچا ۔

زندگی بھر اُنھوں نے بچوں کو خوشیاں دیں اور اِس کے لئے برسرِ پیکار رہے ۔ اب زندگی کے آخری پڑاؤ پر اُنھیں دُکھ کیوں دیا جائے ؟ اُن پر اپنی مرضی لادنے کے بجائے اُن کی مرضی مان لینا چاہےئے۔ اگر اُنھیں ان کی کتابوں پر اعتراض ہے تو گھر سے ساری کتابیں ہٹا لینی چاہےئے ۔

اِس فیصلے پر پہنچنے کے بعد اُنھوں نے سوچا ساری کتابیں کسی لائبریری کو دے دی جائیں تاکہ لوگ اُن کے خزانے سے فیض یاب ہوں ۔

لیکن سارا شہر ڈھونڈنے کے بعد بھی اُنھیں کوئی ایسی لائبریری نظر نہیں آئی جسے وہ اپنی ساری کتابیں دے سکیں ۔

ایک دو لائبریری والوں سے جب اُنھوں نے اِس سلسلے میں بات کی تو اُنھیں جواب ملا ۔

" ہمارے پاس جگہ کی بہت تنگی ہے ، پھر آپ جس طرح کی کتابیں دینا چاہ رہے ہیں اُس طرح کی کتابیں پڑھنے والے لوگ تو ہمارے یہاں ہیں ہی نہیں ، اِس لئے ہم آپ کی وہ بے کار سی کتابیں لے کر اپنی جگہ کیوں پھنسائیں ؟ "

اِس کے بعد ہی اُنھوں نے اپنی ساری کتابیں ردّی میں فروخت کردینے کا فیصلہ کردیا ۔

اور اس وقت جب اُن کی کتابیں بک رہی تھیں تو بھی اُنھیں کوئی افسوس یا ملال نہیں ہورہا تھا ۔ کیونکہ اُنھوں نے اپنے دِل پر پتھر جو رکھ لیا تھا ۔

ڈرائنگ روم کاوہ حصہ خالی ہوگیا تھا تو بہو بیٹوں اور بیٹیوں نے اسے اپنے ڈھنگ سے سجالیا ۔ اور جب وہ اپنی سجاوٹ کو دیکھ دیکھ کر خوش ہورہے تھے تو اُنھیں اطمینان محسوس ہورہا تھا کہ چلو شکر ہے ۔ اُنھوں نے بچوں کی ایک بات مان کر اُنھیں ایک خوشی تو دی ۔

ایک ہفتے کے بعد اُنھیں ایک دوست کا فون آیا ۔

" کیا بات ہے یار .... ! میں نے سنا تم نے اپنی ساری کتابیں ردّی میں دے ڈالیں ؟ "

" ہاں .... ! "

" مگر کیوں ..... ؟ "

" اِس لئے کہ ہماری اولاد اور نئی نسلوں کے دِل میں ان کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے ۔ ان کے لئے وہ بیکار سی چیز ہے۔ ہم نے اپنی وراثت میں اپنی آنے والی نسلوں کو ہر طرح کی خوشیاں ، آسودگی ، تعلیم تو دی لیکن نہ تو اُنھیں کتاب آشنا بنایا نہ اُنھیں کتابوں کی عظمت ، اہمیت ، افادیت اور ضرورت کے بارے میں بتاکر اُنھیں کتابوں کی قدر کرنا سکھایا ۔ جب ہم نے اُنھیں اپنی یہ عظیم وراثت دی ہی نہیں تو وہ کتابوں کی اہمیت کس طرح سمجھیں گے ۔ اُن کے لئے تو وہ بے کار کاغذ کے بوسیدہ پُرزے ہیں ۔ ان کا گھر میں رکھنا ، گھر میں کوڑا کرکٹ رکھنے جیسا ہے ۔

اِس لئے اُن کتابوں کو ردّی میں فروخت کرنے کے علاوہ کوئی راستہ بھی نہیں تھا ۔ "

،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،ختم شدہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

ایم مبین

303 خلاسک پلازہم تین بتی

بھیونڈی 421 302

ضلع تھانہ  مہاراشٹر  انڈیا